دیتے ہیں جام شہادت مجھے معلوم نہ تھا
ہے یہ آئین محبت مجھے معلوم نہ تھا
مطلب چشم مروت مجھے معلوم نہ تھا
تجھ کو مجھ سے تھی شکایت مجھے معلوم نہ تھا
چشم خاموش کی بابت مجھے معلوم نہ تھا
یہ بھی ہے حرف و حکایت مجھے معلوم نہ تھا
عشق بس میں ہے مشیت کے عقیدہ تھا مرا
اس کے بس میں ہے مشیت مجھے معلوم نہ تھا
ہفت خواں جس نے کئے طے سر راہ تسلیم
ٹوٹ جاتی ہے وہ ہمت مجھے معلوم نہ تھا
آج ہر قطرۂ مے بن گیا اک چنگاری
تھی یہ ساقی کی شرارت مجھے معلوم نہ تھا
نگہ مست نے تلوار اٹھا لی سر بزم
یوں بدل جاتی ہے نیت مجھے معلوم نہ تھا
غم ہستی سے جو بیزار رہا میں اک عمر
تجھ سے بھی تھی اسے نسبت مجھے معلوم نہ تھا
عشق بھی اہل طریقت میں ہے ایسا تھا خیال
عشق ہے پیر طریقت مجھے معلوم نہ تھا
پوچھ مت شرح کرم ہائے عزیزاں ہمدم
ان میں اتنی تھی شرافت مجھے معلوم نہ تھا
جب سے دیکھا ہے تجھے مجھ سے ہے میری ان بن
حسن کا رنگ سیاست مجھے معلوم نہ تھا
شکل انسان کی ہو چال بھی انسان کی ہو
یوں بھی آتی ہے قیامت مجھے معلوم نہ تھا
سر معمورۂ عالم یہ دل خانہ خراب
مٹ گیا تیری بدولت مجھے معلوم نہ تھا
پردۂ عرض وفا میں بھی رہا ہوں کرتا
تجھ سے میں اپنی ہی غیبت مجھے معلوم نہ تھا
نقد جاں کیا ہے زمانے میں محبت ہمدم
نہیں ملتی کسی قیمت مجھے معلوم نہ تھا
ہو گیا آج رفیقوں سے گلے مل کے جدا
اپنا خود عشق صداقت مجھے معلوم نہ تھا
درد دل کیا ہے کھلا آج ترے لڑنے پر
تجھ سے اتنی تھی محبت مجھے معلوم نہ تھا
دم نکل جائے مگر دل نہ لگائے کوئی
عشق کی یہ تھی وصیت مجھے معلوم نہ تھا
حسن والوں کو بہت سہل سمجھ رکھا تھا
تجھ پہ آئے گی طبیعت مجھے معلوم نہ تھا
کتنی خلاق ہے یہ نیستئ عشق فراقؔ
اس سے ہستی ہے عبارت مجھے معلوم نہ تھا
غزل
دیتے ہیں جام شہادت مجھے معلوم نہ تھا
فراق گورکھپوری