دیتا نہیں دل لے کے وہ مغرور کسی کا
سچ ہے کہ نہ ظالم سے چلے زور کسی کا
آرائش حسن آئینہ رخ کرتے ہو ہر دم
لینا ہے مگر دم تمہیں منظور کسی کا
بے وجہ نہیں تابش ارباب صفا کو
ہے جلوہ گر اس آئینہ میں نور کسی کا
آتا ہے نظر یاں جو ہر ایوان شکستہ
یک وقت میں تھا خانۂ معمور کسی کا
وہ شوخ پری رشک بکف تیغ سیہ مست
آتا ہے کئے شیشۂ دل چور کسی کا
روکوں میں اب اس کو سر راہے کبھی آ کے
اتنا تو میں رکھوں نہیں مقدور کسی کا
بیدارؔ مجھے یاد اسی کی ہے شب و روز
نے بات کسی کی ہے نے مذکور کسی کا
غزل
دیتا نہیں دل لے کے وہ مغرور کسی کا
میر محمدی بیدار