دیکھوں ہوں یوں میں اس ستم ایجاد کی طرف
جوں صید وقت ذبح کے صیاد کی طرف
نے دانہ ہم قیاس کیا نے لحاظ دام
دھنس گئے قفس میں دیکھ کے صیاد کی طرف
ثابت نہ ہووے خون مرا روز باز پرس
بولیں گے اہل حشر سو جلاد کی طرف
پتھر کی لیکھ تھا سخن اس کا ہزار حیف
بولی زبان تیشہ نہ فرہاد کی طرف
طرہ کے تیرے واسطے صد چوب شانہ دار
قمری گئی ہے کاٹنے شمشاد کی طرف
سوداؔ تو اس غزل کو غزل در غزل ہی کہہ
ہونا ہے تجھ کو میرؔ سے استاد کی طرف
غزل
دیکھوں ہوں یوں میں اس ستم ایجاد کی طرف
محمد رفیع سودا