دیکھتے جاتے ہیں نمناک ہوئے جاتے ہیں
کیا گلستاں خس و خاشاک ہوئے جاتے ہیں
ایک اک کر کے وہ غم خوار ستارے میرے
غم سر وسعت افلاک ہوئے جاتے ہیں
خوش نہیں آیا خزاں کو مرا عریاں ہونا
زرد پتے مری پوشاک ہوئے جاتے ہیں
دیکھ کر قریۂ ویراں میں زمستاں کا چاند
شام کے سائے الم ناک ہوئے جاتے ہیں
ظلم سب اہل زمیں پر ہیں زمیں والوں کے
ہم عبث دشمن افلاک ہوئے جاتے ہیں
دیدۂ تر سے میسر تھا ہمیں دل کا گداز
قحط گریہ ہے تو سفاک ہوئے جاتے ہیں
کوزہ گر نے ہمیں مٹی سے کیا تھا تخلیق
کیا تعجب ہے اگر خاک ہوئے جاتے ہیں
کیسی عبرت ہے کہ اس کش مکش رزق میں ہم
اپنے ہی رزق کی خوراک ہوئے جاتے ہیں
غزل
دیکھتے جاتے ہیں نمناک ہوئے جاتے ہیں
فراست رضوی