EN हिंदी
دیکھتا بھی ہے دیکھتا بھی نہیں | شیح شیری
dekhta bhi hai dekhta bhi nahin

غزل

دیکھتا بھی ہے دیکھتا بھی نہیں

مہر چند کوثر

;

دیکھتا بھی ہے دیکھتا بھی نہیں
جیسے وہ مجھ کو جانتا بھی نہیں

کس طرح آج خود کو پہچانوں
میرے گھر میں تو آئنہ بھی نہیں

دھاک تھی سارے شہر میں جس کی
اب اسے کوئی پوچھتا بھی نہیں

پیچھے مڑنے میں خوف رسوائی
آگے جانے کا راستہ بھی نہیں

روز خبروں میں نام آتا ہے
شہر میں کوئی جانتا بھی نہیں

غیر سے پوچھتا ہے حال مرا
میں بلاؤں تو بولتا بھی نہیں

اس کو نکلا ہوں ڈھونڈنے کوثرؔ
جس کا کوئی اتا پتا بھی نہیں