دیکھو گھر کر بادل آ بھی سکتا ہے 
آدھی رات وہ پاگل آ بھی سکتا ہے 
یوں جو اڑتا پھرتا ہے تیرے سر پر 
پیروں میں یہ آنچل آ بھی سکتا ہے 
راکھ کے ڈھیر میں آگ چھپی بھی ہوتی ہے 
خالی آنکھ میں کاجل آ بھی سکتا ہے 
لازم ہے کیا سب کی پیاس ہو اک جیسی 
ہو کر کوئی جل تھل آ بھی سکتا ہے 
اتنے موڑ سفر میں دیکھ چکا ہوں شاذؔ 
میرے خیالوں میں بل آ بھی سکتا ہے
        غزل
دیکھو گھر کر بادل آ بھی سکتا ہے
زکریا شاذ

