دیکھے کہیں مجھ کو تو لب بام سے ہٹ جائے
اس وضع سے اس کی مرا دل کیونکہ نہ پھٹ جائے
آ جائے کہیں باد کا جھونکا تو مزا ہو
ظالم ترے مکھڑے سے دوپٹہ جو الٹ جائے
اے نالۂ جانکاہ بہت ہو چکی بس کر
ڈرتا ہوں کہیں نیند کسی کی نہ اچٹ جائے
دیکھے کہیں رستے میں کھڑا مجھ کو تو ضد سے
آتا ہو ادھر کو تو ادھر ہی کو پلٹ جائے
چل بیٹھ نثارؔ ایک طرف خلق سے ہوکر
نکلے گا وہ گھر سے پہ کہیں بھیڑ تو چھٹ جائے
غزل
دیکھے کہیں مجھ کو تو لب بام سے ہٹ جائے
محمد امان نثار