دیکھے ہیں جو غم دل سے بھلائے نہیں جاتے
اک عمر ہوئی یاد کے سائے نہیں جاتے
اشکوں سے خبردار کہ آنکھوں سے نہ نکلیں
گر جائیں یہ موتی تو اٹھائے نہیں جاتے
ہر جنبش دامان جنوں جان ادب ہے
اس راہ میں آداب سکھائے نہیں جاتے
ہم بھی شب گیسو کے اجالوں میں رہے ہیں
کیا کیجیے دن پھیر کے لائے نہیں جاتے
شکوہ نہیں سمجھائے کوئی چارہ گروں کو
کچھ زخم ہیں ایسے کہ دکھائے نہیں جاتے
اے دست جفا سر ہیں یہ ارباب وفا کے
کٹ جائیں تو کٹ جائیں جھکائے نہیں جاتے
اے ہوشؔ غم دل کے چراغوں کی ہے کیا بات
اک بار جلا دو تو بجھائے نہیں جاتے
غزل
دیکھے ہیں جو غم دل سے بھلائے نہیں جاتے
ہوش ترمذی