دیکھا کہ چلے جاتے تھے سب شوق کے مارے
معشوق کے پہلو میں شب ہجر گزارے
ہم ہیں کہ ہوئے حلقۂ زنجیر محبت
باقی تو گئے چھوٹ گرفتار تمہارے
ہم چاہنے والوں کا نہیں کوئی ٹھکانا
ہیں آج سر نجد تو کل تخت ہزارے
آ پہنچے کہاں جستجوئے یار میں اس بار
مل جائے تو چل بھی نہ سکے ساتھ ہمارے
ساکن ہو یہاں کوئی تو اس سے کوئی پوچھے
میں گھوم رہا ہوں کہ ہیں گردش میں ستارے
بس دیکھ چکے خوب وہ پستی یہ بلندی
اس چرخ سے اب جلد ہمیں کوئی اتارے
غزل
دیکھا کہ چلے جاتے تھے سب شوق کے مارے
محمد اعظم