دیکھا کبھو نہ اس دل ناشاد کی طرف
کرتا رہا تو اپنی ہی بیداد کی طرف
جس گل نے سن کے نالۂ بلبل اڑا دیا
رکھتا ہے گوش کب مری فریاد کی طرف
موند اے پر شکستہ نہ چاک قفس کہ ہم
ٹک یاں کو دیکھ لیتے ہیں صیاد کی طرف
کہتے ہیں گریہ خانۂ دل کر چکا خراب
آتا ہے چشم اب تری بنیاد کی طرف
خسرو سے کچھ بگاڑ ہے شیریں کو ظاہرا
پیغام پھیر جاتے ہیں فرہاد کی طرف
لیجو خبر مرے بھی دل زار کی نسیم
جاوے اگر تو اس ستم آباد کی طرف
قائمؔ تو اس غزل کو یوں ہی سرسری ہی کہہ
ہونا پڑے گا حضرت استاد کی طرف
غزل
دیکھا کبھو نہ اس دل ناشاد کی طرف
قائم چاندپوری