دیکھا جو سایہ شب میں یہ سمجھا نگاہ نے
شاید وہ آج آ گئے وعدہ نباہنے
ویراں سی اس نواح میں آتا ہی کون تھا
آباد کر دیا ہے اسے قتل گاہ نے
ان قاتلوں پہ کون مقدمہ چلائے گا
جن کو لیا پناہ میں عالم پناہ نے
ہر بات پہ جو مجھ سے یہ کہتے ہیں چپ رہو
کیا اپنے حسن کو بھی نہ دیں گے سراہنے
قائم انہیں فقیروں کے دم سے تھی سلطنت
جن کو کیا ہے ملک بدر سربراہ نے
اچھا ہوا سحر نے الٹ دی نقاب فکر
بھٹکا دیا تھا رات مجھے واہ واہ نے
کاغذ اگر سیاہ کریں تو کریں حریف
سورج اگائے ہیں مری فکر و نگاہ نے
غزل
دیکھا جو سایہ شب میں یہ سمجھا نگاہ نے
مہتاب عالم