دیکھ رہا ہے دریا بھی حیرانی سے
میں نے کیسے پار کیا آسانی سے
ندی کنارے پہروں بیٹھا رہتا ہوں
کیا رشتہ ہے میرا بہتے پانی سے
ہر کمرے سے دھوپ ہوا کی یاری تھی
گھر کا نقشہ بگڑا ہے نادانی سے
اب صحرا میں چین سے سویا کرتا ہوں
ڈر لگتا تھا بچپن میں ویرانی سے
دل پاگل ہے روز پشیماں ہوتا ہے
پھر بھی باز نہیں آتا من مانی سے
کم کم خرچ کرو ورنہ یہ جذبے بھی
بے وقعت ہو جاتے ہیں ارزانی سے
اپنا فرض نبھانا ایک عبادت ہے
عالمؔ ہم نے سیکھا اک جاپانی سے
غزل
دیکھ رہا ہے دریا بھی حیرانی سے
عالم خورشید