دیار خواب سے آگے سفر کرنے کا دن ہے
تو کیا یہ قصۂ جاں مختصر کرنے کا دن ہے
بلاوا آ گیا ہے پھر مجھے صحرا نوردی کا
یہی تو زندگی کو ہم سفر کرنے کا دن ہے
مجھے رقص جنوں کرنا پڑے گا شام ہونے تک
مدارات ہجوم دیدہ تر کرنے کا دن ہے
خزاں کی بدحواسی اس کے چہرے سے ہے ظاہر
جہاں کو موسم گل کی خبر کرنے کا دن ہے
یہ خاشاک سماعت خاک ہونا چاہتے ہیں
زباں کو آج اپنی شعلہ گر کرنے کا دن ہے
ہوا ہے دیدنی منظر زمیں سے آسماں کا
قفس میں آرزوئے بال و پر کرنے کا دن ہے
غزل
دیار خواب سے آگے سفر کرنے کا دن ہے
عبید صدیقی