دسترس میں نہیں حالات تجھے کیا معلوم
اب ضروری ہے ملاقات تجھے کیا معلوم
رات کے پچھلے پہر نیند شکن تنہائی
کیسے کرتی ہے سوالات تجھے کیا معلوم
تو بضد ہے کہ سر عام پرستش ہو تری
میں ہوں پابند روایات تجھے کیا معلوم
جشن ساون کا یوں بڑھ چڑھ کے منانے والے
ظلم کیا ڈھاتی ہے برسات تجھے کیا معلوم
شانۂ وقت پہ اب زلف پریشاں کی طرح
بکھری رہتی ہے مری ذات تجھے کیا معلوم
سلسلہ وار دہکتے ہیں سحر ہونے تک
سر مژگاں مرے جذبات تجھے کیا معلوم
سادہ باتیں تھیں خیالؔ اس کی مگر ان میں کئی
چپ تھے رنگین خیالات تجھے کیا معلوم

غزل
دسترس میں نہیں حالات تجھے کیا معلوم
رفیق خیال