دست سموم دست صبا کیوں نہیں ہوا
در موسم بہار کا وا کیوں نہیں ہوا
ظالم تھے ورائے حساب و کتاب کیا
ان پر نزول قہر خدا کیوں نہیں ہوا
ان کے سروں پہ کیوں نہیں ٹوٹیں قیامتیں
ان کے گھروں میں حشر بپا کیوں نہیں ہوا
گونجی نہ کیوں فلک سے کوئی آیت غضب
یہ گنبد سکوت صدا کیوں نہیں ہوا
دل میں ہیں کس امید کے پنجے گڑے ہوئے
یہ ماس ناخنوں سے جدا کیوں نہیں ہوا
غزل
دست سموم دست صبا کیوں نہیں ہوا
احمد مشتاق