دشت میں جو بھی ہے جیسا مرا دیکھا ہوا ہے
راستہ اس کے سفر کا مرا دیکھا ہوا ہے
کس لئے چیختا چنگھاڑتا رہتا ہے بہت
موج در موج یہ دریا مرا دیکھا ہوا ہے
وقت کے ساتھ جو تبدیل ہوا کرتا ہے
آئنہ آئنہ چہرا مرا دیکھا ہوا ہے
رنگ و روغن مری تصویر کو دینے والا
آب شفاف ہے کتنا مرا دیکھا ہوا ہے
کس طرح تجھ کو یہ بتلاؤں ہوا کے جھونکے
ریت پر لکھا ہے کیا کیا مرا دیکھا ہوا ہے
کس جگہ کون گڑا ہے مجھے معلوم ہے سب
اس ترے شہر کا نقشہ مرا دیکھا ہوا ہے
رات کے بعد سحر ہوتی ہے روشن تنویرؔ
ہے اندھیرے میں اجالا مرا دیکھا ہوا ہے
غزل
دشت میں جو بھی ہے جیسا مرا دیکھا ہوا ہے
تنویر سامانی