دشت میں ہے ایک نقش رہ گزر سب سے الگ
ہم میں ہے شاید کوئی محو سفر سب سے الگ
چلتے چلتے وہ بھی آخر بھیڑ میں گم ہو گیا
وہ جو ہر صورت میں آتا تھا نظر سب سے الگ
سب کی اپنی منزلیں تھیں سب کے اپنے راستے
ایک آوارہ پھرے ہم در بدر سب سے الگ
ہے رہ و رسم زمانہ پردۂ بیگانگی
درمیاں رہتا ہوں میں سب کے مگر سب سے الگ
دے کے عادت رنج کی ہوتا ہے مجھ پر مہرباں
اس ستم گر نے یہ سیکھا ہے ہنر سب سے الگ
شہر کثرت میں عجب اک روزن خلوت کھلا
اس نے جو دیکھا مجھے اک لمحہ بھر سب سے الگ
ہر کوئی شامل ہوا سرمدؔ جلوس عام میں
منہ اٹھائے چل دیا ہے تو کدھر سب سے الگ
غزل
دشت میں ہے ایک نقش رہ گزر سب سے الگ
سرمد صہبائی