EN हिंदी
دشت وحشت کو فقط قیس ہی بھایا ہوا ہے | شیح شیری
dasht-e-wahshat ko faqat qais hi bhaya hua hai

غزل

دشت وحشت کو فقط قیس ہی بھایا ہوا ہے

خالد معین

;

دشت وحشت کو فقط قیس ہی بھایا ہوا ہے
ہم نے بھی عشق کا آزار اٹھایا ہوا ہے

سرکشی موج ہوا کی، یہ کہاں سمجھے گی
کس مشقت سے دیا ہم نے جلایا ہوا ہے

کیسے گلفام کہوں، کیسے ستارہ سمجھوں
وہ بدن اور ہی مٹی کا بنایا ہوا ہے

موج خوش بو کی طرح ہاتھ نہ آنے والے
ہم نے اک ساتھ بہت وقت بتایا ہوا ہے

آپ اسے کاسۂ تشہیر سمجھ بیٹھے ہیں
ہم نے اک عمر سے یہ زخم چھپایا ہوا ہے

کاش وہ چشم گریزاں بھی کبھی جان سکے
ہم کو کس خواب کی وحشت نے جگایا ہوا ہے