دشت حیرت میں سبیل تشنگی بن جائیے
جو کبھی پوری نہ ہو ایسی کمی بن جائیے
رات بھر رہیے مرے ہم راہ نیندوں کی طرح
دن چڑھے تو لذت آوارگی بن جائیے
پہلے تو مجھ کو عطا کیجے وہی چہرہ مرا
وہ نہیں تو پھر مری پہچان ہی بن جائیے
طائر خستہ کی صورت آپ کو دیکھا کروں
شاخ سدرہ سے اترتی روشنی بن جائیے
بیٹھے رہنے سے تو لو دیتے نہیں یہ جسم و جاں
جگنوؤں کی چال چلئے روشنی بن جائیے
غزل
دشت حیرت میں سبیل تشنگی بن جائیے
عباس تابش