دشت بے سمت میں رکنا بھی سفر ایسا تھا
زندگی بھاگتے گزری مجھے ڈر ایسا تھا
سانپ لپٹے ہوئے شاخوں سے ثمر زہر بھرے
جس کے سائے میں لگی آنکھ شجر ایسا تھا
رات بھر آگ برستی ہے ہوا جلتی ہے
سوچتا ہوں مرے خوابوں کا نگر ایسا تھا
عکس امید بھی ملتا نہ تھا صحراؤں میں
آنکھ ترسی تھی سرابوں کو سفر ایسا تھا
ڈھونڈھتا ہوں اسے نیندوں سے تہی راتوں میں
ہائے وہ شخص کہ جو خواب سحر ایسا تھا
اب کہ لوٹا ہوں بخاریؔ تو ہوں بیگانہ سا
میرا اس شہر سے جانا تو خبر ایسا تھا

غزل
دشت بے سمت میں رکنا بھی سفر ایسا تھا
افتخار بخاری