EN हिंदी
دشت در دشت چمکتا رہا دریا کیسا | شیح شیری
dasht-dar-dasht chamakta raha dariya kaisa

غزل

دشت در دشت چمکتا رہا دریا کیسا

منیر سیفی

;

دشت در دشت چمکتا رہا دریا کیسا
تجھ کو دھوکہ ہوا اے دیدۂ بینا کیسا

جگمگاتے ہوئے شہروں کو بھلا کیا معلوم
چہچہاتا ہے درختوں پہ سویرا کیسا

دوستو چھاؤں گھنی دیکھ کے ٹھہرا نہ کرو
بھاگتے ابر کے ٹکڑے کا بھروسا کیسا

کربلا گھیر کے بیٹھی ہیں یزیدی فوجیں
بالمقابل ہے حسین آج اکیلا کیسا

رات جب دستکیں دروازے پہ دیتی ہے منیرؔ
کانپنے لگتا ہے دل خوف سے میرا کیسا