دشنۂ درد ہر اک سانس میں ٹھہرا ہوگا
دل سمندر ہے تو پھر گھاؤ بھی گہرا ہوگا
تیری قربت میں مری سانس گھٹی جاتی ہے
میں نے سوچا تھا ترا جسم بھی صحرا ہوگا
موج خوں سر سے گزر جائے گی جس رات مرے
رنگ پیراہن شب اور بھی گہرا ہوگا
چل پڑے ہیں ابھی جس پر یہ سفیران بہار
کسی بجتی ہوئی زنجیر کا لہرا ہوگا
خشک پتوں پہ چلے جیسے کوئی شام خزاں
اب تری یاد کا یوں جسم پہ پہرا ہوگا
کیا خبر تھی یہ گراں گوشی کا باعث ہوگی
شہر کا شہر صدا پر مری بہرا ہوگا
ہجر کی آگ میں بڑھتی ہے مصورؔ تب و تاب
زہر تنہائی سے رنگ اور سنہرا ہوگا
غزل
دشنۂ درد ہر اک سانس میں ٹھہرا ہوگا
مصور سبزواری