درس آداب جنوں یاد دلانے والے
آ گئے پھر مری زنجیر ہلانے والے
کس طرح کھوئے گئے عکس رواں کی صورت
شہر حیراں میں ترا کھوج لگانے والے
غور سے دیکھ کوئی ہے پس تصویر خزاں
ورنہ کس سمت گئے رنگ جمانے والے
خم محراب پہ صدیوں کی سیہ گرد بھی دیکھ
طاق ویراں میں لہو اپنا جلانے والے
زہر اب زہر ہے کرتا نہیں کار تریاک
مر گئے زہر کو تریاک بنانے والے
فصل بے برگ کچھ ایسی بھی تو بے رنگ نہیں
داستاں عہد بہاراں کی سنانے والے
دف گل ٹوٹ گئی دست صبا میں لیکن
رقص کرتے ہی رہے وجد میں آنے والے
بجھ گئے شوخ دریچوں میں دمکتے مہتاب
سو گئے رات کی تقدیر جگانے والے
سوچتا ہوں کہ یہ معمورۂ غم یہ دنیا
کس لیے تو نے بنائی ہے بنانے والے
غزل
درس آداب جنوں یاد دلانے والے
اسلم انصاری