دریا میں ڈوب جاوے کہ یا چاہ میں پڑے
اے عشق پر نہ کوئی تری راہ میں پڑے
مت پوچھ جور غم سے دل ناتواں کا حال
بجلی تو دیکھی ہوگی کبھی کاہ میں پڑے
اک دم بھی دیکھ سکتا نہیں ہم کو اس کے پاس
خاک اس فلک کے دیدۂ بد خواہ میں پڑے
جو دوستی کے نام سے رکھتا ہو دشمنی
دیوانہ ہو جو اس کی کوئی چاہ میں پڑے
آ جا کہیں شتاب کہ مانند نقش پا
تکتے ہیں راہ تیری سر راہ میں پڑے
جلوے دو چند ہوویں شب ماہ کے ابھی
اس ماہرو کا عکس اگر ماہ میں پڑے
سلگے ہے نیم سوختہ جیسے دھوئیں کے ساتھ
جلتے ہیں یوں ہم اپنی حسنؔ آہ میں پڑے
غزل
دریا میں ڈوب جاوے کہ یا چاہ میں پڑے
میر حسن