درد تھمتا ہی نہیں سینے میں آرام کے بعد
ہم تو جلتے ہیں چراغوں کی طرح شام کے بعد
بس یہی سوچ کے اکثر میں لرز جاتا ہوں
جانے کیا ہوگا مرا حشر کے ہنگام کے بعد
عشق کر بیٹھے مگر ہم نے یہ سوچا ہی نہیں
خاک ہو جائیں گے ہم عشق کے انجام کے بعد
لکھ کے کاغذ پہ ترا نام قلم توڑ دیا
کوئی بھایا ہی نہیں مجھ کو ترے نام کے بعد
غم کے سیلاب میں پھر بہہ گیا مسکن میرا
چین پایا ہی تھا اک بارش آلام کے بعد
مرے قاتل نے مری لاش پہ دم توڑ دیا
وہ پشیماں تھا بہت قتل کے الزام کے بعد
ہم نے سیکھا ہے ہنر فتح و ظفریابی کا
عزم اپنا ہے جواں کوشش ناکام کے بعد
سنگ ساری و ملامت ہوئے اب اپنے نصیب
ہم تو برباد ہوئے کوچۂ اصنام کے بعد
کیا خزاں آئی کہ برباد ہوا سارا چمن
رہ گئی آہ و فغاں گلشن گلفام کے بعد
غزل
درد تھمتا ہی نہیں سینے میں آرام کے بعد
سید محمد عسکری عارف