EN हिंदी
درد کی دھوپ سے چہرے کو نکھر جانا تھا | شیح شیری
dard ki dhup se chehre ko nikhar jaana tha

غزل

درد کی دھوپ سے چہرے کو نکھر جانا تھا

نصیر ترابی

;

درد کی دھوپ سے چہرے کو نکھر جانا تھا
آئنہ دیکھنے والے تجھے مر جانا تھا

راہ میں ایسے نقوش کف پا بھی آئے
میں نے دانستہ جنہیں گرد سفر جانا تھا

وہم‌ و ادراک کے ہر موڑ پہ سوچا میں نے
تو کہاں ہے مرے ہم راہ اگر جانا تھا

آگہی زخم نظارہ نہ بنی تھی جب تک
میں نے ہر شخص کو محبوب نظر جانا تھا

قربتیں ریت کی دیوار ہیں گر سکتی ہیں
مجھ کو خود اپنے ہی سائے میں ٹھہر جانا تھا

تو کہ وہ تیز ہوا جس کی تمنا بے سود
میں کہ وہ خاک جسے خود ہی بکھر جانا تھا

آنکھ ویران سہی پھر بھی اندھیروں کو نصیرؔ
روشنی بن کے مرے دل میں اتر جانا تھا