درد کی دولت نایاب کو رسوا نہ کرو
وہ نظر راز ہے اس راز کا چرچا نہ کرو
وسعت دشت میں دیوانے بھٹک جاتے ہیں
دوستو آہوئے رم خوردہ کا پیچھا نہ کرو
تم مقدر کا ستارہ ہو مرے پاس رہو
تم جبین شب نمناک پہ ابھرا نہ کرو
پس دیوار بھی دیوار کا عالم ہوگا
تم یوں ہی روزن دیوار سے جھانکا نہ کرو
گھر پلٹ آنے میں عافیت جاں ہے یارو
جب ہوا تیز چلے راہ میں ٹھہرا نہ کرو
یا دل و دیدہ کو تنویر محبت بخشو
یا دم صبح زمانے میں اجالا نہ کرو
یہ جہان گزراں ہاتھ کسے آیا ہے
پیچھے مڑ مڑ کے کسی شخص کو دیکھا نہ کرو
بھاگتے لمحے کو کب روک سکا ہے کوئی
وہ تو اک سایہ ہے سائے کی تمنا نہ کرو
سر سلامت نہیں رہتے ہیں زباں کٹتی ہے
پتھروں کو کبھی بھولے سے بھی سجدہ نہ کرو
پیاس بجھتی ہے کہاں تپتے بیابانوں کی
مری آنکھوں مری آنکھو یوں ہی برسا نہ کرو
زیست ہے تیز قدم آگے نکل جائے گی
تم کسی موڑ پہ رکنے کا ارادہ نہ کرو
کچھ ادھر سائے ہیں جو بڑھ کے لپٹ جاتے ہیں
اخترؔ اس راہ سے ہو کر کبھی گزرا نہ کرو
غزل
درد کی دولت نایاب کو رسوا نہ کرو
اختر ہوشیارپوری