EN हिंदी
درد کے سانچے میں ڈھل کر رہ گئی | شیح شیری
dard ke sanche mein Dhal kar rah gai

غزل

درد کے سانچے میں ڈھل کر رہ گئی

عرشی بھوپالی

;

درد کے سانچے میں ڈھل کر رہ گئی
زندگی کروٹ بدل کر رہ گئی

وقت نظارہ نگاہ باریاب
ان کے جلووں میں مچل کر رہ گئی

آنکھ میں آنسو مچل کر رہ گئے
موج دریا میں اچھل کر رہ گئی

کیا کیا اے بلبل آتش نوا
آشیاں میں برق جل کر رہ گئی

ان کا غم مجھ کو ودیعت ہو گیا
ساری دنیا ہاتھ مل کر رہ گئی