درد کا میرے یقیں آپ کریں یا نہ کریں
عرض اتنی ہے کہ اس راز کا چرچا نہ کریں
لاکھ غافل سہی پر ایسے بھی ہم کور نہیں
کہ چمن دیکھ کے ذکر چمن آرا نہ کریں
عقل و دانش سے تو کچھ کام نہ نکلا اپنا
کب تک آخر دل دیوانہ کا کہنا نہ کریں
وہ نگاہیں عجب انداز سے ہیں عشوہ فروش
غم پنہاں کو ہمارے کہیں رسوا نہ کریں
تیرے آشفتہ سر ایسے بھی نہیں سودائی
کہ دل و دیں کے لئے زلف کا سودا نہ کریں
میں نے بیہودہ توقع کی سزا پائی ہے
کچھ خیال آپ مری حسرت دل کا نہ کریں
میرے ارمانوں کو کاش اتنی سمجھ ہو وحشتؔ
کہ ان آنکھوں سے مروت کا تقاضا نہ کریں
غزل
درد کا میرے یقیں آپ کریں یا نہ کریں
وحشتؔ رضا علی کلکتوی