در افق پہ رقم روشنی کا باب کریں
یہ جی میں ہے کہ ستارے کو آفتاب کریں
نگہ میں گھومتی پھرتی ہیں صورتیں کیا کیا
کسے خیال میں لائیں کسے خراب کریں
یہ آرزو ہے کہ پھوٹیں بدن کے خیمے سے
اور اپنی ذات کے صحرا میں رقص آب کریں
مرے حروف تہجی کی کیا مجال کہ وہ
تجھے شمار میں لائیں ترا حساب کریں
نہیں ہے شہر میں کوئی بھی جاگنے والا
کسے کہیں کہ چلو سیر ماہتاب کریں
فلک تو گوش بر آواز ہے مگر تابشؔ
نہ ہو زبان ہی منہ میں تو کیا خطاب کریں
غزل
در افق پہ رقم روشنی کا باب کریں
عباس تابش