دم خواب راحت بلایا انہوں نے تو درد نہاں کی کہانی کہوں گا
مرا حال لکھنے کے قابل نہیں ہے اگر مل گئے تو زبانی کہوں گا
لب جوئے الفت رمائی ہے دھونی یہاں قصۂ سخت جانی کہوں گا
ادھر آ ادھر روح شیریں ادھر آ ترے کوہ کن کی کہانی کہوں گا
خضر تیرے چشمہ کا پانی ہے اچھا مگر میں اسے موج فانی کہوں گا
محبت کا مارا ہوا دل جلا دے میں تب تیرے پانی کو پانی کہوں گا
تری ذات واحد ہے بیدار مطلق تجھے تو کبھی نیند آتی نہیں ہے
تری آنکھ لگنے کی حسرت میں یا رب کہاں تک میں قصے کہانی کہوں گا
وہ اک آئنہ جس میں منہ دیکھتے ہیں کسی ایک کا وقف صورت نہیں ہے
یہیں سے نتیجہ اٹھا کر دوئی کا میں وحدت کو کثرت کا بانی کہوں گا
یہ ہستی کا شیشہ جو تو نے دیا ہے ذرا اس پہ چاہت کی صیقل تو کر لوں
یہ ہو جائے پھر اپنی ہستی کو میں بھی تری ذات کا نقش ثانی کہوں گا
ازل ہی میں تجھ پر نظر پڑ چکی ہے نہ کر مجھ سے انکار جلوہ نمائی
تجلی تری گو نئی روشنی ہے مگر میں تو اس کو پرانی کہوں گا
محبت میں انکار جلوہ نمائی ذرا اس طریقے کو تو یاد رکھنا
اگر میں کبھی تیرے درجے پہ پہنچا تو میں بھی یوں ہی لن ترانی کہوں گا
میں کیا بے وفا ہوں جو محشر میں مضطرؔ خدا سے کروں شکوۂ قتل اپنا
زمانہ کہے خون ناحق بہایا اگر مجھ سے پوچھا تو پانی کہوں گا
غزل
دم خواب راحت بلایا انہوں نے تو درد نہاں کی کہانی کہوں گا
مضطر خیرآبادی