EN हिंदी
دم آخر مصیبت کاٹ دو بہر خدا میری | شیح شیری
dam-e-aKHir musibat kaT do bahr-e-KHuda meri

غزل

دم آخر مصیبت کاٹ دو بہر خدا میری

مضطر خیرآبادی

;

دم آخر مصیبت کاٹ دو بہر خدا میری
تم آ کر درد کے پردے میں کر جاؤ دوا میری

محبت بت کدے میں چل کے اس کا فیصلہ کر دے
خدا میرا خدا ہے یا یہ مورت ہے خدا میری

یہاں سے جب گئی تھی تب اثر پر خار کھائے تھی
وہاں سے پھول برساتی ہوئی پلٹی دعا میری

تو ہی کہہ دے یہ جسم زار میرا ہے کہ تیرا ہے
تو ہی کہہ دے یہ روح ناتواں تیری ہے یا میری

پڑا ہے تفرقہ جس دن سے کیا کیا یاد کرتی ہے
ادھر مجھ کو جفا تیری ادھر تجھ کو وفا میری

مقید ہو کے لطف ہستئ آزاد بھی کھویا
وہ کیا تھی ابتدا میری یہ کیا ہے انتہا میری

وہاں جب تھے تو جسم ناتواں میں روح پھونکی تھی
یہاں جس دن سے آئے آپ بن بیٹھے قضا میری

میان حشر یہ کافر بڑے اترائے پھرتے ہیں
مزا آ جائے ایسے میں اگر سن لے خدا میری

کسی کا جلوۂ رنگیں یہ کہتا ہے انہیں پوجو
یہ اس پتھر کے بت ہیں جس پہ پستی تھی حنا میری

نہ جانے کون سے یوسف کا جلوہ مجھ میں پنہاں ہے
زلیخا آج تک کرتی ہے مضطرؔ التجا میری