دم بھر کی خوشی باعث آزار بھی ہوگی
اس راہ میں سایہ ہے تو دیوار بھی ہوگی
صدیوں سے جہاں جس کے تعاقب میں رواں ہے
وہ ساعت صد رنگ گرفتار بھی ہوگی
رنگوں کی ردا اوڑھ کے اس ریگ رواں پر
اتری ہے جو شب وہ شب دیدار بھی ہوگی
اٹھلائے گا پلکوں پہ کبھی صبح کا تارا
بیدار کبھی نرگس بیمار بھی ہوگی
کہتا ہے مرے کان میں خوشبو کا پیامی
منہ بند کلی مائل گفتار بھی ہوگی
سائے سے لپٹ جائیں گے پاؤں سے بہ ہر گام
رسوائی کچھ اپنی سر بازار بھی ہوگی
اے شب نہ کٹے گی ترے سینے کی سیاہی
اک شوخ کرن مفت گنہ گار بھی ہوگی
سنتے ہیں کہ ہر صبح کے ہاتھوں میں رشیدؔ اب
زہراب میں ڈوبی ہوئی تلوار میں ہوگی

غزل
دم بھر کی خوشی باعث آزار بھی ہوگی
رشید قیصرانی