دم بہ دم بڑھ رہی ہے یہ کیسی صدا شہر والو سنو
جیسے آئے دبے پاؤں سیل بلا شہر والو سنو
خاک اڑاتی نہ تھی اس طرح تو ہوا اس کو کیا ہو گیا
دیکھو آواز دیتا ہے اک سانحہ شہر والو سنو
یہ جو راتوں میں پھرتا ہے تنہا بہت ہے اکیلا بہت
ہو سکے تو کبھی اس کا بھی ماجرا شہر والو سنو
یہ ہمیں میں سے ہے اس کے رنج و الم اس سے پوچھو کبھی
ہاں سنو اس کی روداد مہر و وفا شہر والو سنو
اس کے جی میں ہے کیا اس سے پوچھو ذرا دیکھیں کہتا ہے کیا
کس نے اس شخص پر کوہ غم ڈھا دیا شہر والو سنو
عمر بھر کا سفر جس کا حاصل ہے اک لمحۂ مختصر
کس نے کیا کھو دیا کس نے کیا پا لیا شہر والو سنو
اس کی بے خواب آنکھوں میں جھانکو کبھی اس کو سمجھو کبھی
اس کو بیدار رکھتا ہے کیا واقعہ شہر والو سنو
غزل
دم بہ دم بڑھ رہی ہے یہ کیسی صدا شہر والو سنو
اطہر نفیس