دیر میں ہے وہ نہ کعبہ میں نہ بت خانے میں ہے
ڈھونڈھتا ہوں جس کو میں وہ میرے کاشانے میں ہے
یہ ترا حسن تصور تیرے کاشانے میں ہے
تو نہ آبادی میں ہے غافل نہ ویرانے میں ہے
ہے بجائے خود زمانہ بیکسی میں مبتلا
اب مروت کا نشاں اپنے نہ بیگانے میں ہے
اس کی حسرت دیکھیے اس کا کلیجہ دیکھیے
راز جس کی زندگی کا اس کے مر جانے میں ہے
اصل میں اے شمع تو ہے مخزن سوز و گداز
تجھ سے جو کچھ بچ رہا وہ سوز پروانے میں ہے
مجھ کو جنت سے کوئی مطلب نہ کوثر سے غرض
میرے حصہ کی وہی مے ہے جو پیمانے میں ہے
روشنی تاروں سے ہوتی ہے نہ شمعوں سے ضیا
کیا زمانے کی سیاہی میرے غم خانے میں ہے
میں نہیں کہتا مگر میں نے سنا ہے بارہا
جنت الفردوس کی اک راہ میخانے میں ہے
میں جو روتا ہوں تو روتا ہے زمانہ میرے ساتھ
غم زمانے بھر کا شوکتؔ میرے افسانے میں ہے
غزل
دیر میں ہے وہ نہ کعبہ میں نہ بت خانے میں ہے
شوکت تھانوی