دار کی چھاؤں میں گزری کبھی زنداں میں کٹی
عمر اپنی یوں ہی تکمیل بہاراں میں کٹی
بات اس زلف پریشاں کی چلی تھی اک رات
پھر تو ہر رات مری خواب پریشاں میں کٹی
شاخ در شاخ جلے اور نشیمن کے چراغ
جب کوئی شاخ نشیمن کی گلستاں میں کٹی
نقد جاں دے کے بھی چک پائی نہ قیمت اس کی
ایک ساعت جو کبھی حلقۂ خوباں میں کٹی
پھول آنکھوں میں سجائے ہوئے آیا کوئی
خیر مقدم کی گھڑی سیر گلستاں میں کٹی

غزل
دار کی چھاؤں میں گزری کبھی زنداں میں کٹی
ولی عالم شاہین