دانائے غم نہ محرم راز حیات ہم
دھڑکا رہے ہیں پھر بھی دل کائنات ہم
ہاں اک نگاہ لطف کے حق دار تھے ضرور
مانا کہ تھے نہ قابل صد التفات ہم
بیم خزاں سے کس کو مفر تھا مگر نسیم
کرتے رہے گلوں سے نکھرنے کی بات ہم
اے شمع دلبری تری محفل سے بارہا
لے کر اٹھے ہیں سوز غم کائنات ہم
ڈھونڈا کیے ہیں راہ ہوس رہروان شوق
دیکھا کیے ہیں لغزش پائے ثبات ہم
ان کے غموں کا ہائے سہارا نہ پوچھیے
کچھ پا گئے ہیں اپنے غموں سے نجات ہم
غزل
دانائے غم نہ محرم راز حیات ہم
معین احسن جذبی