دامن دراز کر تو رہے ہو دعاؤں کے
دھبے بھی ہیں نگاہ میں اپنی قباؤں کے
سینہ میں سوز مرگ تمنا نہ پوچھئے
مرگھٹ میں جیسے اٹھتے ہوں شعلے چتاؤں کے
ہم نے تو کشتیوں کو ڈبونا کیا قبول
منت گزار ہو نہ سکے ناخداؤں کے
دنیا نے ان پہ چلنے کی راہیں بنائی ہیں
آئے نظر جہاں بھی نشاں میرے پاؤں کے
صحرا کے خشک سینہ سے چشمہ ابل پڑا
رگڑے لگے جو ننھے سے بچہ کے پاؤں کے
بوڑھا سا ایک پیڑ وہ اب صحن میں نہیں
ہم نے اٹھائے فیض سدا جس کی چھاؤں کے
پی لو امیرؔ اب مئے عرفان و آگہی
کیوں جال میں پھنسے ہو مجازی خداؤں کے

غزل
دامن دراز کر تو رہے ہو دعاؤں کے
محمد امیر اعظم قریشی