دامان شب میں چاند کا منظر بھی دیکھ لے
سونے سے پہلے کمرے سے باہر بھی دیکھ لے
ان موسموں کی راہ میں یوں بے خبر نہ بیٹھ
رہتا ہے کون کون سفر پر بھی دیکھ لے
گم سم رکھے گی تجھ کو کہاں تک وہ ایک یاد
منہ سے ہٹا کے میلی سی چادر بھی دیکھ لے
دھندلا رہی ہے دیر سے شمع بدن کی لو
کوئی غبار سانس کے اندر بھی دیکھ لے
آباد زیر آب ہیں ڈوبے ہوئے نگر
یادوں کے پانیوں میں اتر کر بھی دیکھ لے
فرصت ملے تو کھول چھپے خواہشوں کے راز
گنجان جنگلوں سے گزر کر بھی دیکھ لے
شاہیںؔ بدن بھی زیر کیا جاں بھی زیر کر
دشت بلا سے آگے سمندر بھی دیکھ لے
غزل
دامان شب میں چاند کا منظر بھی دیکھ لے
جاوید شاہین