ڈالتا عدل کی جھولی میں سیاہی کیسے
مانگتا مجھ سے کوئی جھوٹی گواہی کیسے
کیا ترے جسم پہ ٹوٹی ہے قیامت کوئی
دفعتاً آج مری روح کراہی کیسے
جب ہر اک درد کی زنجیر کو کٹ جانا ہے
پھر ترا درد ہوا لا متناہی کیسے
کتنا بے ڈھنگ تناسب ہے محاذ غم پر
اتنے لشکر سے لڑے ایک سپاہی کیسے
جی رہا ہوں میں غلاموں کا حوالہ بن کر
میری پہچان بنے مسند شاہی کیسے
کس حوالے سے تھا موسم کا ستم پیڑوں پر
دور تک پھیل گئی زرد تباہی کیسے

غزل
ڈالتا عدل کی جھولی میں سیاہی کیسے
سورج نرائن