دائم سراب اک مرے اندر ہے کیا کروں
صحرا مری نظر میں سمندر ہے کیا کروں
دیکھے جو میری نیکی کو شک کی نگاہ سے
وہ آدمی بھی تو مرے اندر ہے کیا کروں
یک گونہ بے خودی کو ہی اب ڈھونڈھتا ہے دل
غم اور خوشی کا بوجھ برابر ہے کیا کروں
اچھا تو ہے کہ سب سے ملوں ایک ہی طرح
لیکن وہ اور لوگوں سے بہتر ہے کیا کروں
ملتے ہیں یوں تو لوگ بظاہر بہت گلے
ہر آستین میں کوئی خنجر ہے کیا کروں
غزل
دائم سراب اک مرے اندر ہے کیا کروں
سلمان اختر