EN हिंदी
دائم سراب اک مرے اندر ہے کیا کروں | شیح شیری
daim sarab ek mere andar hai kya karun

غزل

دائم سراب اک مرے اندر ہے کیا کروں

سلمان اختر

;

دائم سراب اک مرے اندر ہے کیا کروں
صحرا مری نظر میں سمندر ہے کیا کروں

دیکھے جو میری نیکی کو شک کی نگاہ سے
وہ آدمی بھی تو مرے اندر ہے کیا کروں

یک گونہ بے خودی کو ہی اب ڈھونڈھتا ہے دل
غم اور خوشی کا بوجھ برابر ہے کیا کروں

اچھا تو ہے کہ سب سے ملوں ایک ہی طرح
لیکن وہ اور لوگوں سے بہتر ہے کیا کروں

ملتے ہیں یوں تو لوگ بظاہر بہت گلے
ہر آستین میں کوئی خنجر ہے کیا کروں