داغ دھل گئے اب تو درد میں کمی سی ہے
زندگی نہ جانے کیوں پھر بھی اجنبی سی ہے
کل جس آبگینے سے موج مے چھلکتی تھی
آج اس آبگینے کی آنکھ میں نمی سی ہے
کیف چشم ساقی میں کچھ کمی نہیں لیکن
جشن مے گساراں میں آج بے دلی سی ہے
گردش جہاں میں بھی کچھ اثر ہے لغزش کا
اور نبض ہستی بھی کچھ رکی رکی سی ہے
ساز آرزو چپ ہے روح میں ہے سناٹا
دل میں جو بھی صورت ہے اب مٹی مٹی سی ہے

غزل
داغ دھل گئے اب تو درد میں کمی سی ہے
خورشید الاسلام