EN हिंदी
داغ دھل گئے اب تو درد میں کمی سی ہے | شیح شیری
dagh dhul gae ab to dard mein kami si hai

غزل

داغ دھل گئے اب تو درد میں کمی سی ہے

خورشید الاسلام

;

داغ دھل گئے اب تو درد میں کمی سی ہے
زندگی نہ جانے کیوں پھر بھی اجنبی سی ہے

کل جس آبگینے سے موج مے چھلکتی تھی
آج اس آبگینے کی آنکھ میں نمی سی ہے

کیف چشم ساقی میں کچھ کمی نہیں لیکن
جشن مے گساراں میں آج بے دلی سی ہے

گردش جہاں میں بھی کچھ اثر ہے لغزش کا
اور نبض ہستی بھی کچھ رکی رکی سی ہے

ساز آرزو چپ ہے روح میں ہے سناٹا
دل میں جو بھی صورت ہے اب مٹی مٹی سی ہے