چپ تھے برگد خشک موسم کا گلا کرتے نہ تھے
چل رہی تھیں آندھیاں پتے صدا کرتے نہ تھے
ہم رسیدہ تھے کہ دیکھیں دوسروں کو شعلہ پا
تھے سفر میں اور سفر کی ابتدا کرتے نہ تھے
بند تھا پانی صف آرا تھے غنیم رو سیاہ
ہم ادا اس پر بھی رسم کربلا کرتے نہ تھے
مطمئن تھے اہل مقتل نیم جاں کر کے مجھے
کیسی ہشیاری تھی سر تن سے جدا کرتے نہ تھے
ہم کو کس شب زندہ رہنے کی ہوس ہوتی نہ تھی
دن میں ہم کب خودکشی کا فیصلہ کرتے نہ تھے
کیسے دور اندیش منصف تھے کہ انصافاً مجھے
مانتے تھے بے خطا لیکن رہا کرتے نہ تھے
غزل
چپ تھے برگد خشک موسم کا گلا کرتے نہ تھے
نشتر خانقاہی