چپ بھی ہو بک رہا ہے کیا واعظ
مغز رندوں کا کھا گیا واعظ
تیرے کہنے سے رند جائیں گے
یہ تو ہے خانۂ خدا واعظ
اللہ اللہ یہ کبر اور یہ غرور
کیا خدا کا ہے دوسرا واعظ
بے خطا میکشوں پہ چشم غضب
حشر ہونے دے دیکھنا واعظ
ہم ہیں قحط شراب سے بیمار
کس مرض کی ہے تو دوا واعظ
رہ چکا میکدے میں ساری عمر
کبھی مے خانے میں بھی آ واعظ
ہجو مے کر رہا تھا منبر پر
ہم جو پہنچے تو پی گیا واعظ
دخت رز کو برا مرے آگے
پھر نہ کہنا کبھی سنا واعظ
آج کرتا ہوں وصف مے میں امیرؔ
دیکھوں کہتا ہے اس میں کیا واعظ
غزل
چپ بھی ہو بک رہا ہے کیا واعظ
امیر مینائی