چوری چوری آنکھ لڑتے میں دکھا دوں تو سہی
کھانس کر کھنکھار کر اس کو جتا دوں تو سہی
مل تو دیکھے غیر سے کس طرح ملتا ہے وہ شوخ
وہ جو نقشہ اس نے باندھا ہے مٹا دوں تو سہی
جل بجھے سینہ میں دل لیکن نہ نکلے منہ سے آہ
در مقفل کر کے میں گھر کو جلا دوں تو سہی
عشق کہتا ہے کہ سر رشتہ دل کا میرے ہاتھ
جوں پتنگ اک دن کٹا کر میں لٹا دوں تو سہی
ساتھ لے کر یار غیروں کو ادھر آتا تو ہے
اے نثارؔ اس سے یہ رستا میں چھڑا دوں تو سہی
غزل
چوری چوری آنکھ لڑتے میں دکھا دوں تو سہی
محمد امان نثار