EN हिंदी
چیز دل ہے رخ گلفام میں کیا رکھا ہے | شیح شیری
chiz dil hai ruKH-e-gulfam mein kya rakkha hai

غزل

چیز دل ہے رخ گلفام میں کیا رکھا ہے

آنند نرائن ملا

;

چیز دل ہے رخ گلفام میں کیا رکھا ہے
کیف صہبا میں ہے خود جام میں کیا رکھا ہے

گنگناتا ہوا دل چاہیے جینے کے لئے
اس نزاع سحر و شام میں کیا رکھا ہے

کون کس طرح سے ہوتا ہے حریف مے زیست
اور تلخابۂ ایام میں کیا رکھا ہے

عشق کرتا ہے تو کر اور نگاہوں کو بلند
رشتۂ رہگذر و بام میں کیا رکھا ہے

مرغ‌ آزاد ہوا کیا تری خودداری کو
چند دانوں کے سوا دام میں کیا رکھا ہے

حسن فن کار کی اک چھیڑ ہے عشق ناداں
بے وفائی کے اس الزام میں کیا رکھا ہے

دیکھنا یہ ہے کہ وہ دل میں مکیں ہے کہ نہیں
چاہے جس نام سے ہو نام میں کیا رکھا ہے

دیں مرے ذوق پرستش کو دعائیں ملاؔ
ورنہ پتھر کے ان اصنام میں کیا رکھا ہے