EN हिंदी
چھٹ گئے ہم جو اسیر غم ہجراں ہو کر | شیح شیری
chhuT gae hum jo asir-e-gham-e-hijran ho kar

غزل

چھٹ گئے ہم جو اسیر غم ہجراں ہو کر

رشید رامپوری

;

چھٹ گئے ہم جو اسیر غم ہجراں ہو کر
اڑ گیا رنگ رخ یار پریشاں ہو کر

کوچۂ یار سے اٹھے نہ پریشاں ہو کر
مل گئے خاک میں خاک در جاناں ہو کر

ساتھ اپنے دل بیمار کو لیتے جاؤ
کیوں ہوں ہم تم سے خجل طالب درماں ہو کر

نہ گلہ تم سے ستم کا نہ وفا کا شکوہ
کیا کرو گے مرے احوال کے پرساں ہو کر

حال اپنا جو بیاں کرتا ہوں لوگوں سے رشیدؔ
دیکھتے ہیں مری صورت وہ پریشاں ہو کر