چھٹ گئے ہم جو اسیر غم ہجراں ہو کر
اڑ گیا رنگ رخ یار پریشاں ہو کر
کوچۂ یار سے اٹھے نہ پریشاں ہو کر
مل گئے خاک میں خاک در جاناں ہو کر
ساتھ اپنے دل بیمار کو لیتے جاؤ
کیوں ہوں ہم تم سے خجل طالب درماں ہو کر
نہ گلہ تم سے ستم کا نہ وفا کا شکوہ
کیا کرو گے مرے احوال کے پرساں ہو کر
حال اپنا جو بیاں کرتا ہوں لوگوں سے رشیدؔ
دیکھتے ہیں مری صورت وہ پریشاں ہو کر
غزل
چھٹ گئے ہم جو اسیر غم ہجراں ہو کر
رشید رامپوری