EN हिंदी
چھپاتا ہوں مگر چھپتا نہیں درد نہاں پھر بھی | شیح شیری
chhupata hun magar chhupta nahin dard-e-nihan phir bhi

غزل

چھپاتا ہوں مگر چھپتا نہیں درد نہاں پھر بھی

سیماب اکبرآبادی

;

چھپاتا ہوں مگر چھپتا نہیں درد نہاں پھر بھی
نگاہ یاس ہو جاتی ہے دل کی ترجماں پھر بھی

غم واماندگی سے بے نیاز ہوش بیٹھا ہوں
چلی آتی ہے آواز درائے کارواں پھر بھی

حجاب اندر حجاب امواج طوفان تجلی ہیں
فروغ شمع سے پروانہ ہے آتش بجاں پھر بھی

اشاروں سے نگاہوں سے بہت کچھ منع کرتا ہوں
قفس ہی پر جھکی پڑتی ہے شاخ آشیاں پھر بھی

بہت دلچسپ ہے سیمابؔ شام وادئ غربت
وطن کی صبح میں کچھ اور تھیں رنگینیاں پھر بھی