EN हिंदी
چھپا رکھا تھا یوں خود کو کمال میرا تھا | شیح شیری
chhupa rakkha tha yun KHud ko kamal mera tha

غزل

چھپا رکھا تھا یوں خود کو کمال میرا تھا

مغنی تبسم

;

چھپا رکھا تھا یوں خود کو کمال میرا تھا
کسی پہ کھل نہیں پایا جو حال میرا تھا

ہر ایک پائے شکستہ میں تھی مری زنجیر
ہر ایک دست طلب میں سوال میرا تھا

میں ریزہ ریزہ بکھرتا چلا گیا خود ہی
کہ اپنے آپ سے بچنا محال میرا تھا

ہر ایک سمت سے سنگ صدا کی بارش تھی
میں چپ رہا کہ یہی کچھ مآل میرا تھا

ترا خیال تھا تازہ ہوا کے جھونکے میں
جو گرد اڑ کے گئی ہے ملال میرا تھا

میں رو پڑا ہوں تبسمؔ سیاہ راتوں میں
غروب ماہ میں شاید زوال میرا تھا