EN हिंदी
چھوڑیں گے گریباں کا نہ اک تار کبھی ہم | شیح شیری
chhoDenge gareban ka na ek tar kabhi hum

غزل

چھوڑیں گے گریباں کا نہ اک تار کبھی ہم

حاتم علی مہر

;

چھوڑیں گے گریباں کا نہ اک تار کبھی ہم
بیٹھیں گے جنوں میں تو نہ بیکار کبھی ہم

رہتے نہ اجازت کے طلب گار کبھی ہم
ہوتے جو ترے طالب دیدار کبھی ہم

پہنائے گا ہم کو وہ گل زخم کی بدھی
پنہائیں گے قاتل کو جو اک ہار کبھی ہم

دیوانہ نوازی ہے کہ سر کو دیئے پتھر
چھوڑیں گے نہ اب دامن کہسار کبھی ہم

واللہ بتوں سے نہیں کرنے کے محبت
رکھیں گے نہ اب رشتۂ زنار کبھی ہم

عنقا ہو جہاں سے مری جاں نام ہما بھی
پائیں جو ترا سایۂ دیوار کبھی ہم

پھاہے تو رہے داغ جنوں پر پئے جنت
کیا ڈر ہے جو رکھتے نہیں دستار کبھی ہم

تجویز کیا کیجئے گا یوں ہیں سزائیں
یا رحم کے بھی ہوں گے سزاوار کبھی ہم

فرصت نہیں ملتی ہے غزل کہنے کی اے مہر
پڑھتے ہیں تب اس ڈھنگ کے اشعار کبھی ہم